حضرت امام فخرالدین الرازی رحمۃاللہ علیہ

  • Admin
  • Sep 30, 2021

حضرت امام فخرالدین الرازی رحمۃاللہ علیہ

نام:

آپ ؒ کا نام علامۃ الامام فخرالدین الرازی ابو عبداللہ ؒمحمد ؒبن عمر ؒبن حسین القریشی الطبرستانیؒ ہے۔ 

آپؒ  کا لقب فخرالدین ہے۔چونکہ ان کی ولادت اور تربیت مشہور علمی مرکز "رَی"میں ہوئی تھی اس نسبت کی وجہ سے وہ امام رازی ؒکے نام سے مشہور ہیں ۔ آپؒ کے والد عمرؒ بن حسینؒ کا لقب ضیاء الدین تھا اور یہ "رَی" کے خطیب رہے ۔ اس لیے امام رازی "ابن الخطیب "کے نام سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

ولادت:

امام رازی علیہ الرحمۃ 25 رمضان المبارک 543 یا 544 یا 545 ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔

تعلیم و تربیت:

علم کلام اور علم فقہ میں امام رازی ؒکے پہلے اُستاذ آپؒ کے والد ضیاء الدین عمر بن حسین ؒتھے اور اُن کے استاذ محترم مشہور محدث حضرت امام بغوی علیہ الرحمۃ تھے ۔امام رازی علیہ الرحمۃ نے اپنے والد گرامی سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد مشاہیر اور ممتاز اساتذہ سے مختلف علوم و فنون حاصل کئے اور پھر درس و تدریس ، وعظ و نصیحت ، مناظرو ں اور مباحثوں اور تصنیف و تالیف کے مشاغل جاری رکھے یہاں تک کہ اہلِ فضیلت نے ان کو’’ الامام الرازی‘‘ اور’’ فخرالدین رازی‘‘ کا لقب دے دیا اور آج تک اسی لقب سے یاد کئے جاتے ہیں۔

آپؒ کا علمی مقام:

امام رازی علیہ الرحمۃ علم الکلام اور فلسفہ و معقولات میں اپنے دور کے تمام اہلِ علم پر فوقیت رکھتے تھے انہوں نے مختلف علوم و فنون میں بڑی مفید کتابیں لکھیں جنہوں نے مختلف علاقوں میں مقبولیت حاصل کر لی تھی اور لوگ دوسرے علماء کی کتابوں کو چھوڑ کر ان کی کتابوں کی طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔آپؒ وعظ و نصیحت اور خطابت میں بھی بے مثال صلاحیت رکھتے تھے اور دورانِ تقریر ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور اس کیفیت میں بہت زیادہ روتے تھے۔

شہر" ہرات" میں ان کی مجلس میں ہر قسم کے نظریات رکھنے والے لوگ شریک ہوتے اور قسم قسم کے سوالات کرتے مگر امام صاحب ہر ایک کو بڑے اچھے طریقے سے جواب دیا کرتے کہ ہر ایک اپنی جگہ مطمئن ہوجاتا حتیٰ کہ اُن کے تسلی بخش جوابات کی وجہ سے "فرقہ کرامیہ "اور دوسرے اہلِ بدعت کے بہت سے لوگوں نے اہلِ سنت کا مسلک اختیار کر لیا تھا۔اُس دور میں "ہرات" اور اُس کے اِردگرد کے علاقوں میں "فرقہ کرامیہ "کی کثرت تھی امام رازی ؒنے اُن کے ساتھ مناظرے بھی کئے اور اس فرقے کے ہاتھوں بڑی بڑی تکلیفیں بھی اٹھائی تھیں اُس کے باوجود وعظ و نصیحت کو بند نہیں کیا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور لوگ فیض یاب ہوتے رہے۔

امام رازی ؒکی ابتدائی زندگی بڑے افلاس اور فقر و احتیاج میں گزری لیکن زندگی کا آخری حصہ بڑے تمول اور راحت و سکون میں گزرا۔سلطان شہاب الدین غوری اور خوارزم کے سلطان خوارزم شاہ کے ساتھ آپؒ کے تعلقات قائم ہوگئے اور علماء و فضلاء اور عوام میں بھی ان کی مقبولیت عروج پر پہنچ گئی ۔ مختلف علاقوں اور شہروں سے بڑے بڑے علماء و فضلاء سفر کر کے امام رازیؒ سے ملنے اور آپؒ سے علمی فیوض و برکات حاصل کرنے اور ان کے خطابات اور مواعظ سننے کیلئے آتے رہتے تھے۔

درس و تدریس:

علامہ حافظ عماد الدین ابن کثیر دمشقیؒ امام رازی علیہ الرحمۃ کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

خوارزم اور دوسرے علاقوں کے بادشاہوں کے ہاں امام رازی ؒکو بڑی عظمت اور وجاہت حاصل تھی ۔آپؒ کیلئے مختلف شہروں میں بہت سے مدارس بنائے گئے تھے اور خالص سونے کے 80 ہزار دینار آپؒ  کی ملکیت میں جمع تھے اور دوسری اشیاء استعمال اثاثے ، سواریاں اور کپڑے وغیرہ اس کے علاوہ تھے ۔ آپؒ کی ملکیت میں 50 ترکی غلام بھی تھے۔ آپؒ کی مجلس ِوعظ و خطابت میں بادشاہ، وزراء، علماء، امراء، فقراء اور عوام سب لوگ شریک ہوتے تھے (جو آپؒ سے فیض یاب اور سیراب ہوتے تھے)اور آپؒ کی عبادات اَوراد و وَظائف اور اَذکار کے اوقات بھی متعین تھے ، ۔امام رازی ؒاور "فرقہ کرامیہ "کے درمیان مباحثے اور مناظرے بھی ہوتے تھے۔ 

 علم کلام میں رسوخ اور پختہ علم کے باوجود امام رازی ؒنے فرمایا تھا: 

{من لزم مذھب العجائز کان ھوالفائز}

جو شخص بوڑھی عورتوں کے مذہب کا پابند رہا وہی کامیاب رہے گا۔ 

مقصد یہ ہے کہ فلسفیانہ اور متکلمانہ موشگافیوں اور تکلفی دلائل سے قطع نظر ایک سادہ سی بوڑھی عورت فطری طور پر اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺ پر اور دین ِ اسلام پر جو ایمان و یقین رکھتی ہے کامیابی اور نجات کیلئے یہی ایمان کافی ہے۔

مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب ’’امام رازی‘‘ میں مفتاح السعادۃ کے حوالہ سے ایک واقعہ درج کیا ہے کہ:

امام رازی ؒجب "ہرات" تشریف لائے تو وہاں کے تمام علماء ، صلحاء، امراء اور سلاطین ملاقات کیلئے خدمت میں حاضر ہوئے ، امام صاحب نے پوچھا کہ کیا شہر میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو میری ملاقات کیلئے نہیں آیا؟

لوگوں نے کہا کہ ایک نیک آدمی گوشہ نشین ہے اوروہ نہیں آیا امام صاحب نے فرمایا کہ مَیں مسلمانوں کا اِمام ہوں تو اُس نے میری ملاقات کیوں نہیں کی ؟ لوگوں نے جب امام صاحب کی یہ بات اِس مردِ صالح سے کہی تو وہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا اس کے بعد شہرکے لوگوں نے ایک باغ میں دونوں کو کھانے پر بلایا تو امام رازی ؒنے اُن سے ملاقات نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا مَیں ایک فقیر آدمی ہوں میری ملاقات سے آپؒ کو کوئی شرف حاصل نہیں ہوسکتا اور میری ملاقات نہ کرنے سے آپؒ کے شرف میں کوئی کمی نہیں آتی ، امام صاحب نے کہا یہ جواب تو اہلِ ادب یعنی صوفیا کا ہے میرے سامنے حقیقت بیان کرو ، اُس بزرگ نے کہا کہ آپؒ کی ملاقات کس بناء پر واجب ہے؟

امام صاحب نے کہا مَیں مسلمانوں کا امام ہوں ، اُس مردِ صالح نے کہا کہ آپؒ کا سرمایہ فخر علم ہے لیکن خدا کی معرفت رأس العلوم ہے تو یہ بتائو کہ تم نے خدا کو کیسے پہچانا ہے ؟ امام صاحب نے فرمایا کہ مَیں نے خدا کو سو (100) دلیلوں سے پہچانا ہے۔بزرگ نے کہا کہ دلیل کی ضرورت تو شک کو زائل کرنے کیلئے ہوتی ہے مگر خدا نے میرے دل میں ایسی روشنی ڈال دی ہے کہ اس کی وجہ سے میرے دل میں شک کا گزر ہی نہیں ہوتا ،تاکہ اس کے ازالے کیلئے مجھے دلیل کی ضرورت پڑے، امام رازیؒ کے دل پر اس بات نے ایسا اثر کیا کہ امام رازی ؒنے اسی مجلس میں اس مردِ صالح کے سامنے توبہ کی اور خلوت نشین ہوگئے۔

 راوی کہتے ہیں کہ وہ مردِ صالح حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہٗ تھے۔

امام رازی ؒمنطق، فلسفہ اور علم کلام میں تو ایک مسلمہ امام تھے اور معقولات میں اس کے مقابلے کے افراد تو شاذ و نادر ہی ملتے لیکن دوسرے علوم و فنون میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔

ابن الاثیر جزری لکھتے ہیں: 

{وکان امام الدنیا فی عصرہ}

یہ اپنے دور میں پوری دُنیا کے امام تھے۔

 امام رازی ؒکسرِ نفسی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ولم نستفذ من بحثنا طول عمرنا

سویٰ ان جمعنا فیہ قیل و قالوا

ہم نے لمبی عمر میں کچھ بھی حاصل نہ کیا سوائے اس کے کہ ہم نے قیل و قال کو جمع کیا ہے۔

مزید فرماتے ہیں:

{لقد اخبرت الطرق الکلامیہ والمناھج الفلسفیہ فلم اجدھا تروی غلیلا ولا تشفی علیلا ورئیت اقرب الطرق طریقۃ { القرآن}

میں نے علم کلام کے طرز استدلال کو بھی آزمایا لیا ہے اور فلسفیانہ مناہج سے بھی واقفیت حاصل کر لی ہے لیکن مَیں نے ان میں سے کسی کو نہیں پایا کہ لوگوں کی پیاس بجھاتا ہو یا کسی مریض کو شفا دیتا ہواور مَیں نے قریب ترین اور آسان ترین طریقہ قرآن کا طریقہ پایا ہے۔

(جس سے کامل طور پر تسلی اور تشفی نصیب ہوتی ہے)صفات کے اثبات کیلئے {الرحمٰن علی العرش استویٰ }اور{ الیہ یصعد الکلم الطیب} پڑھو اور تشبیہ کی نفی کیلئے{ لیس کمثلہ شی ٔ} اور {ھل تعلم لہ سمیّا}پڑھو۔)

تصانیف و تالیف:

ابن خلکان کہتے ہیں کہ آپؒ کی تصانیف فائدہ بخش ہیں اور پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہیں امام کی ان کتب کو عظیم عزت شہرت اور خوش بختی عطا کی گئی کیونکہ لوگوں نے متقدمین کی کتابوں کو چھوڑ دیا اور ان کی کتابوں کو اپنا لیا ان کی کتابوں میں جو عجیب و غریب نظم و ترتیب دکھائی دیتی ہے اس کا آغاز انہوں نے ہی کیا ہے اس سے پہلے ان کی مثال نہیں ملتی۔

آپ ؒکی 70 سے زائد کتب کا ذکر ترجمہ تفسیر کبیر میں کیا گیا ہے ان کے علاوہ چند کتابیں جنہیں آپ ؒمکمل نہیں کرسکے اور چند کتابیں فارسی میں لکھیں ۔

رسالہ کمالیہ ، تھجین ِتعجیز الفلاسفہ اور البراھین البھائیہ۔

کتاب التفسیر الکبیر، المحصول فی علم اصول الفقہ ، المعالم فی اصول الدین، سراج القلوب، کتاب نھایۃ العقول، مناقب الامام الشافعی، تفسیر اسماء الحسنیٰ ، فضائل الصحابۃ الراشدین، رسالۃ فی ذم الدنیا ، الزبدۃ فی علم الکلام، تحصیل الحق وغیرہ۔

حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں:

آپؒ کی تقریباً دو سو تصانیف ہیں جن میں التفسیر الحافل، المطالب العالیہ ، المباحث الشرقیہ، اربعین، اصول الفقہ اور المحصول وغیرہ شامل ہیں اور آپؒ نے ایک مفید جلد میں امام شافعی کے حالات لکھے۔

اور آپؒ کی تفسیر کبیر بہت معروف کتاب ہے جس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ امام رازی ؒنے اپنے قلم سے تفسیر مکمل نہیں کی تھی البتہ اس میں اختلاف ہے کہ انہوں نے کہاں تک خود لکھی تھی اکثر کی رائے یہ ہے کہ سورۃ انبیاء تک لکھی گئی تھی کہ ان کا انتقال ہوگیا ۔تکملہ کس نے لکھا اس کے بارے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی، البتہ حافظ ابن حجر نے ’’الدرر الکامنہ‘‘ میں لکھا ہے کہ

تفسیر کبیر کا تکملہ نجم الدین احمد ؒبن محمد مخزومی مصری متوفی 727 ھ نے لکھا ہے اور بعض کے نزدیک تکملے کا کچھ حصہ قاضی القضاۃ شہاب الدین بن خلیل ؒدمشقی نے لکھا ہے۔

ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی ابن خلکان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام رازیؒ کی یہ تفسیر بہت بڑی ہے اس میں اُنہوں نے ہر نادر بات جمع کردی ہے لیکن ان کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ اپنی تفسیر مکمل نہ کر سکے چنانچہ ان کے مشہور شاگرد قاضی شہاب الدین احمد بن خلیل ؒالخویبی دمشقی متوفی(687ھ )نے جتنا حصہ ناقص رہ گیا تھا اس کی تکمیل کی ۔ جبکہ شیخ نجم الدین بن محمد ؒالقمولی( متوفی 777ھ) نے اس کا تکملہ لکھا۔ 

اس تفسیر کا تکملہ جس نے بھی لکھا ہو تفسیر کا اسلوب آغاز سے لیکر آخر تک یکساں ہے اور قاری کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ امام رازیؒ سے یہ تفسیر ادھوری رہ گئی تھی۔

وصیت نامہ:

امام رازی علیہ الرحمۃنے مرض موت میں اپنے شاگرد سے وصیت نامہ لکھوایا تھا جسے تاج الدین سبکی ؒمتوفی 771 ہجری نے نقل کیا بہت طویل ہے یہاں اس کا مختصر حصہ ذکر کرتے ہیں:

اپنے رب کی رحمت کا اُمیدوار اور اپنے مالک کے کرم پر بھروسہ کرنے والا بندہ محمد بن عمر بن حسینؒ رازی اس حال میں کہتا ہے کہ وہ اپنی آخرت کے پہلے وقت اور اپنی دُنیا کے آخری وقت میں ہے ۔مَیں کہتا ہوں کہ میرا دین محمد رسول اللہ ﷺکی متابعت ہے ، میری کتاب قرآن عظیم ہے اور دین کی تلاش میں میرا اعتماد

اِ نہیں دو(2) پر ہے یعنی قرآن او رسنت پر ہے۔ اے آوازوں کو سننے والے ! اے دعاوں کو قبول کرنے والے اور اے لغزشوں کو معاف کرنے والے! مَیں تیرے بارے میں حسن ظن رکھتا تھا اور تیری رحمت پر اُمید رکھتا اور تُونے فرمایا ہے کہ مَیں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں یعنی وہی کرتا ہوں جو میرے بارے میں میرا بندہ گمان کرتا ہے۔اور تُو نے فرمایا ہے کہ کون ہے جو پریشان حال کی پکار سنتا ہے جب وہ اسے پکارے؟مَیں مانتاہوں کہ مَیں تیرے پاس کچھ بھی لے کر نہیں آیا ہوں تُو غنی او رکریم ہے میری اُمید کو نامراد نہ بنا اور میری دعا کر رَد نہ فرما ،اور مجھے اپنے عذاب سے بچا ،امن میں رکھ ،موت سے پہلے بھی ، موت کے بعد بھی اور موت کے وقت بھی اور مجھ پر موت کی سختیاں آسا ن فرما۔ بے شک تُو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

شیطان اور امام رازی رحمۃاللہ علیہ کا واقعہ:

شیطان کے حملے سے بچنے کا بہترین طریقہ ولیوں (پیر) کا دامن تھامنا ہے۔امام فخرالدین رازی ؒصاحبِ تفسیر کبیر۔آپؒ نے جو تفسیر لکھی ہے سارے مولوی اُس تفسیر کے محتاج ہیں۔امام صاحبؒ فرماتے ہیں اگر میں اعوذ باللہ کے مسائل نکالنا شروع کردوں تو میں دس ہزار مسائل صرف اعوذ باللہ کے نکال سکتا ہوں۔

غور کریں امام صاحبؒ کتنے بڑے عالم ہوں گے۔

جب آپؒ کا نزع کا وقت آیا تو شیطان حملہ آور ہوگیا۔شیطان نے کہا مولوی صاحبؒ! ذرا یہ تو بتاؤ خدا کو کس طرح پیچانتے ہو؟امام فخر الدین رازیؒ نزع کے وقت قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر دلیلیں دے رہے ہیں۔

وہ اللہ ہے ،وہ خالق ہے،وہ مالک ہے۔امام صاحبؒ نے ایک دلیل دی شیطان نے توڑی دی،دوسری دی وہ بھی توڑی دی،تیسری دلیل دی وہ بھی توڑ دی۔امام صاحبؒ نے نزع کے وقت خدا کو ماننے اور پیچانے کی ایک سو ایک دلیلیں پیش کیں،شیطان نے سب توڑ دی،قریب تھا کہ ایمان پر حملہ ہوجاتا۔

 حضرت خواجہ نجم الدین کبریؒ'امام فخر الدین رازیؒ کے پیر ہیں۔خواجہ نجم الدینؒ نے ہزاروں میل کے فاصلے پر سے اپنے مرید امام صاحبؒ کو دیکھ لیا کہ نزع کا وقت ہے ،شیطان حملہ آور ہے،خواجہ صاحبؒ وضو فرمارہے تھے۔تو آپؒ نے فورا ًوضو کے پانی کی چھینٹیں مار کر کہا:

رازی تو چرانمی گوئی کہ من خدا را بلا دلیل میشناسم

(تو یہ کیوں نہیں کہتا کہ میں خدا کو بغیر دلیل مانتا ہوں)

امام فخر الدین رازیؒ نے جب اپنے پیر کی آواز سنی تو فورا کہا :"شیطان میں خدا کو بغیر دلیل مانتا ہوں"۔جب آپؒ نے کہا تو شیطان بھاگ گیا۔آپؒ کا ایمان محفوظ رہا۔امام صاحبؒ کتنے بڑے عالم ہیں مگر نزع کے وقت  آپ ؒکی اللہ کے ولی نے حفاظت کی۔ولیوں کا دامن صرف دنیا میں ہی کام نہیں آۓ گا بلکہ قبر اور حشر میں بھی کام آۓ گا۔پیر کے بغیر یہ منزلیں طے کرنا بڑی مشکل ہیں۔ 

مولانا روم فرماتے ہیں:

پیر را بگزیں کہ بے پیر ایں سفر

ہست بس پُر آفت وخوف وخطر

پیر کی تلاش کرو ،اس لئے کہ اگلا سفر بڑا خوف اور بڑے خطر والا ہے،اگر اس خوفناک اور خطرے والے سفر سے بچنا چاہتا ہے تو کسی اللہ والے کا مرید ہو جا۔

وصال:

انتقل الامام فخرالدین الرازی الیٰ جوا ر ربہ بھراۃ فی یوم الاثنین اول شوال من سنۃ ست وستمائۃ کذا قال  {السبکی}

امام فخرالدین رازی" ہرات "میں یکم شوال ( عیدالفطر)بروزسوموار 606 ہجری میں اِس دُنیا سے رخصت ہو کر اللہ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں پہنچے اسی طرح امام سبکی ؒنے بیان کیا۔

تبصرہ و سبق:

قارئین کرام!انسان اس کائنات میں آزمائش کیلئے اتارا گیا تاکہ اس میں کامیابی اور فلاح کو حاصل کرے لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ کیا کامیابی فقط الفاظ و معانی کے مجموعے کو اکٹھا کر لینے سے ممکن ہے ؟ کیا نجات چند علوم پر دسترس حاصل کر لینے سے ممکن ہے؟ کیا فلاح چند کتابیں تصنیف و تالیف کرلینے اورخطبہ و وَعظ کر لینے سے ہے ؟ اگر نجات کا دارومدار صرف ان کے حصول سے ممکن ہوتا تو امام رازی علیہ الرحمۃ آپ مفسر قرآن، فقیہہ عصر، علم کلام ، فلسفہ اور معقولات ، تصنیف و تالیف ، خطابات و وَعظ میں اپنے دور کے تمام اہلِ علم پر فوقیت رکھتے تھے انہوں نے مختلف فنون میں بڑی مفید کتابیں لکھی تھیں جن کی تعداد دو سو(200)ہے اوربڑی مقبولیت حاصل ہوئی -عربی و فارسی میں مہارت تامہ کے باوجود امام رازی ؒجب موت کے قریب تھے اور شیطان حملہ آور ہوا تو تمام تر فضیلت کے باوجود وسیلت کام آئی۔

جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام فخرالدین رازی علیہ الرحمۃ پر جب نزع کا وقت آیا تو شیطان آپہنچا کہنے لگا کہ اے فخرالدین آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ذات ہونے کی کیا دلیل ہے ؟ انہوں نے ایک دلیل دی شیطان نے اپنے علم سے ردّ کردی انہوں نے دوسری دلیل دی اُس نے وہ بھی رد کردی حتیٰ کہ 359 دلیلیں دیں شیطان نے سب رد کر دیں(آپ ؒکے مرشد و محسن)حضر ت نجم الدین کبریٰ علیہ الرحمۃبڑی مسافت پر وضو فرما رہے تھے اور اپنے باطنی تصرف سے یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے ،آپؒ نے اپنے ہاتھ سے پانی حضرت فخرالدین رازی علیہ الرحمۃ کی جانب پھینکا تمام پردے چاک کئے اور فرمایا اس کو بول دو کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا کسی دلیل کے مانتا ہوں ۔یہاں شیطان نے ایک اور حملہ کیا کہنے لگا اے فخرالدین آج تمہیں تمہاری فضیلت نے بچا لیا ہے آپؒ نے جواباً فرمایا نہیں مجھے میرے وسیلے نے بچا لیا۔ 

وسیلت کی عظمت کو واضح کرتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ایسے عالم کا ملنا بہت ہی مشکل و دُشوار ہے جو ہر مشکل نکتہ کھول سکے ، آدمی کو تزکیہ نفس ، تصفیہ قلب ، تجلیہ روح اور تخلیہ سر علم سے ہر گز حاصل نہیں ہو سکتا چاہے ہزاراں ہزار و بے شمار علمی کتابیں پڑھ لی جائیں پس اے صاحب فضیلت عالم تو راہ وسیلت اختیار کر۔

یا د رکھیں اس سے علم کی ہرگز نفی مراد نہیں بلکہ علم کے عملی نفاذ کیلئے راہبر و رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح کہ قرآن کریم کوعملی نمونہ کے طور پر پیش کرنے کیلئے صاحب قرآن کو بھیجا گیا تاکہ تعلیم قرآن کو عملی جامہ پہنایا جائے اس لئے وسیلت کو لازم قرار دیا گیا۔

آپ ؒدوسرے مقام پر فرماتے ہیں: 

وسیلہ مرشد ہی ایک ایسا سبب جو طالب اور گناہ کے درمیان حائل ہوکر طالب کو گناہ سے بچا لیتا ہے مرشد کامل طالب کو گناہ ہر گز نہیں کرنے دیتا وہ ظاہری صورت یا باطنی صورت میں ظاہر ہوکر طالب کو گناہ سے روک لیتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ وسیلت بہتر ہے فضیلت سے بلکہ فضیلت ہی وسیلت کی خاطر یعنی علم کا مقصود فقط معرفتِ ذات حق ہے۔

اسی لئے قرآن کریم میں حکم فرما یا گیا:

{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ}(۱۵)

اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔

ایمان اور تقویٰ کے بعد معیت کا حکم اس لئے دیا گیا کہ اگر ایمان اور تقویٰ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو تمہارے اوپر سچوں کی معیت لازم ہے ورنہ شیطان زندگی کے کھیلان کو تباہ و برباد کردے گا۔

علم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت ، ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن تک رسائی اور شریعت کے ذریعے طریقت تک پہنچنے کیلئے شیخِ کامل کی ضرورت ہے -دورِ حاضر میں کامیابی و کامرانی کیلئے 

کو ئی نیا طریقہ نہیں بلکہ جو طریقہ کار قدیم سے چلا آرہا ہے اُسی کو اپنانے میں کامیابی ہے جس کا اشارہ قرآن مجید میں {وابتغوا الیہ الوسیلۃ}کے الفاظ سے کیا گیا۔

یاد رکھو! فقط علم حاصل کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ مرشد و مرید کی طریقت اختیار کرنا ہوگی خود کو کسی مردِ کامل کے آستانہ عالیہ پر جھکانا ہوگا۔مَیں اور عقل کی خبر سے نکل کر نگاہِ عشق میں مبتلا ہونا پڑے گا تب بات بنے گی کہ کتاب کیا؟ کتابیں پڑھنے سے ہی نہیں اپنی ذات کی کتاب پڑھانے والے معلم ، مربی اور مرشد تک جانا ہوگا ، جو درِ رسولﷺ تک رسائی کو آسان اورانسان کو حقیقی اِنسان بنائے گا اور یہی فیضانِ رسالت ﷺ ہے جو تا قیامت جاری و ساری ہے۔

مردِ مرشد را طلب کن راہبر

تا دہد از حق ترا کُلی خبر

حوالہ جات: 

(۱)(تفسیر کبیر جلد۱ ص ۵)(۲)(وفیات الاعیان لابن خلکان بتقدیم و تاخیر و تلخیص جلد ۴ ص ۲۴۸-۲۵۱ ، بحوالہ علوم القرآن جلد ۲ ص ۵۳۴،۵۳۵)(۳)(تاریخ ابن کثیر البدایہ والنھایہ جلد ۱۳ ص ۸۰) (۴)(علوم القرآن از مولانا گوہر رحمن، جلد ۲، ص ۵۳۷-۵۳۶)(۵)(الکالمل فی التاریخ جلد ۲ ۱ ص ۲۸۸)(۶)(تاریخ ابن کثیر جلد ۱۳ ص ۸۲)(۷)(فضل قدیر ، ترجمہ تفسیر کبیر جلد ۱ ، ص ۴۶-۴۵) (۸)(تاریخ ابن کثیر البدایہ والنھایہ جلد ۱۳ ص ۸۰)(۹)(علوم القرآن جلد ۲ ص ۵۴۸)(۱۰)( اقبال صاحب حال ص ۳۴-۳۳)(۱۱)(طبقات الشافعیۃ الکبریٰ جلد ۸ ص ۹۰) (۱۲)(تفسیر کبیر جلد۱ ، ص ۱۰)(۱۳)(محک الفقر :۵۴۳)(۱۴)(محک الفقر کلان: ص ۶۵۹)(۱۵)(التوبۃ:۱۱۹)

شیطان کے حملے سے بچنے کا بہترین طریقہ ولیوں (پیر) کا دامن تھامنا ہے۔امام فخرالدین رازی ؒصاحبِ تفسیر کبیر۔آپؒ نے جو تفسیر لکھی ہے سارے مولوی اُس تفسیر کے محتاج ہیں۔امام صاحبؒ فرماتے ہیں اگر میں اعوذ باللہ کے مسائل نکالنا شروع کردوں تو میں دس ہزار مسائل صرف اعوذ باللہ کے نکال سکتا ہوں۔

غور کریں امام صاحبؒ کتنے بڑے عالم ہوں گے۔

جب آپؒ کا نزع کا وقت آیا تو شیطان حملہ آور ہوگیا۔شیطان نے کہا مولوی صاحبؒ! ذرا یہ تو بتاؤ خدا کو کس طرح پیچانتے ہو؟امام فخر الدین رازیؒ نزع کے وقت قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر دلیلیں دے رہے ہیں۔

وہ اللہ ہے ،وہ خالق ہے،وہ مالک ہے۔امام صاحبؒ نے ایک دلیل دی شیطان نے توڑی دی،دوسری دی وہ بھی توڑی دی،تیسری دلیل دی وہ بھی توڑ دی۔امام صاحبؒ نے نزع کے وقت خدا کو ماننے اور پیچانے کی ایک سو ایک دلیلیں پیش کیں،شیطان نے سب توڑ دی،قریب تھا کہ ایمان پر حملہ ہوجاتا۔

 حضرت خواجہ نجم الدین کبریؒ'امام فخر الدین رازیؒ کے پیر ہیں۔خواجہ نجم الدینؒ نے ہزاروں میل کے فاصلے پر سے اپنے مرید امام صاحبؒ کو دیکھ لیا کہ نزع کا وقت ہے ،شیطان حملہ آور ہے،خواجہ صاحبؒ وضو فرمارہے تھے۔تو آپؒ نے فورا ًوضو کے پانی کی چھینٹیں مار کر کہا:

رازی تو چرانمی گوئی کہ من خدا را بلا دلیل میشناسم

(تو یہ کیوں نہیں کہتا کہ میں خدا کو بغیر دلیل مانتا ہوں)

امام فخر الدین رازیؒ نے جب اپنے پیر کی آواز سنی تو فورا کہا :"شیطان میں خدا کو بغیر دلیل مانتا ہوں"۔جب آپؒ نے کہا تو شیطان بھاگ گیا۔آپؒ کا ایمان محفوظ رہا۔امام صاحبؒ کتنے بڑے عالم ہیں مگر نزع کے وقت  آپ ؒکی اللہ کے ولی نے حفاظت کی۔ولیوں کا دامن صرف دنیا میں ہی کام نہیں آۓ گا بلکہ قبر اور حشر میں بھی کام آۓ گا۔پیر کے بغیر یہ منزلیں طے کرنا بڑی مشکل ہیں۔ 

مولانا روم فرماتے ہیں:

پیر را بگزیں کہ بے پیر ایں سفر

ہست بس پُر آفت وخوف وخطر

پیر کی تلاش کرو ،اس لئے کہ اگلا سفر بڑا خوف اور بڑے خطر والا ہے،اگر اس خوفناک اور خطرے والے سفر سے بچنا چاہتا ہے تو کسی اللہ والے کا مرید ہو جا۔